*گستاخان رسول کا عبرت ناک انجام*
واقعات کے تناظر میں
پہلی قسط
پیش کش۔محمد صادق اشاعتی تونڈاپوری استاذ جامعہ اکل کوا ۔
*(١)دشمن رسول خسرو پرویز*
*(کسری ایران)کا قتل*
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو اسلام کی دعوت دینے کا قصد فر مایا
تو اس کے نام ایک خط لکھا۔ *من مُحَمَّدٍ بِنْ عَبدِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلٰی عظيم فارس*
*والسلام علی منِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَسْلِمَ تَسْلَمَ*
*فان تولیت فعیلک اثم المجوس۔*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط دیکر عبدالله بن رواحہ (اور بقول بعض) عبدالله بن حذیفہ کو ملک ایران روانہ فرمادیا۔
چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہ خط لے کر خسرو پرویز کےدربار میں پہونچے تودیکھا کہ لوگ اس لعین خسروکو سجدہ کررہے ہیں،اس کے تخت کو چوم رہے ہیں،اس کی دونوں جانب فوج کھڑی ہوئی اس کی حفاظت کررہی ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک تلوار تھی
جو بہت پرانی اور جس کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا بھی تھا میں اس کو زمین پر چبھوتے ہوۓ اس کے دربار میں جا پہنچا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ تو کون ہے؟ جواب دیا عبد اللہ بن رواحہ پوچھا گیا کہاں سےآئے ہو؟ جواب دیا دیار مدینہ سے : کس لئے آۓ ہو؟ جواب دیا *رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ مبارک لے کر آیا ہوں۔*
فرماتے ہیں کہ خسرو پرویز نے میرے لباس کو دیکھا پھر فوج کی طرف دیکھا اور کہا تو نے مجھ کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے فرمایا کہ میں بندے کے سامنے سر نہیں جھکاتا سر جھکانے کا در صرف ایک ہےاور وہ دربار ہے رب العالمین کا۔
تو خسرو پرویز نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ میں کسری ہوں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ تیرے وجود کا مرکز و مادہ ایک قطرۂ ناپاک ہے۔
تو خسرو پرویز نے کہا میرے سامنے تیری ایسی جرأت؟
مؤرخین لکھتے ہیں کہ دریں اثناء آ پ رضی اللہ عنہ کو ڈرانے کے لیے آپ کی طرف ایک شیر چھوڑ دیا گیا تاکہ آپ رضی اللہ عنہ خوفزدہ ہو جائے مگر صحابئ رسول( عبداللہ بن رواحہ)نے شیر کو دیکھ کر کہا کہ او بِلیٌ کے بچے تو کہاں اور کس پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور شیر کے دو ٹکڑے کر دیا۔
پھر حضرت عبداللہ ابن رواحہ نے خسرو پرویز کے ہاتھ میں حضور کا نامہ مبارک دیا۔
خسرو پرویز نے اس میں دعوتِ اسلام اور تصدیقِ رسالت کی عبارت کو دیکھا تو توہین آمیز الفاظ میں یہ کہا کہ کون ہیں میرا غلام جو اتنی جرأت کے ساتھ خط لکھتا ہے اور میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھتا ہے یہ کہہ کر خط کو پھاڑ دیتا ہے،اور فورا یمن کے والی بازان کے پاس اپنا فرمان بھیج دیتا ہے کہ فورا چند تیز رفتار نوجوانوں کو تیز رفتار سواری سے مدینہ بھیج کر محمد نامی شخص کو پکڑ کر میرے پاس حاضر کیا جائے
ادھر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتے ہوئے واپس حاضر ہوئے اور تمام ماجرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے خسرو پرویز کے لیے بد دعا نکل گئی۔
*اَللھم مزق ملکہ کل ممزق* کہ اے اللہ تو اُس کے ملک یعنی بادشاہت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔
چنانچہ بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ شیرویہ جو اسی خسرو پرویز کسری کا بیٹا تھا ایک روز اس کے مخصوص محل میں جا گُھسا اور اپنے ہی باپ کو قتل کر کے اس کی نعش کو باہر پھینک دیا۔
صبح کو لوگوں نے دیکھا کہ دشمن رسول خسرو پرویز مَرا پڑا ہے اور کتے اس کی نعش کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔
ادھر جوتیز رفتار نوجوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لیے گئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ یہ لوگ مہمان ہیں اس لیے ان کی مہمان نوازی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ کافی دور سے آئے ہو ذرا آرام کر لو۔
بعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والوں سے کہا سُنو جس خسرونے تمہیں مجھے یعنی محمد کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا ہے اس کی نعش کو کتے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔
چنا نچہ جب یہ لوگ مدینہ سے اپنے ملک واپس آئے تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں خسرو پرویز جہنم رسید ہو چکا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ دشمن رسول کو دنیا میں کبھی چین اور امن نہیں مل سکتا ہے اور آخرت میں دائمی عذاب میں تو وہ گرفتار ہی ہوگا۔ (جاری)
(مستفاد از مواعظ حق)
07/10/2024 بعد الفجر